۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سلمان عابدی

حوزہ/اردو ادب کی خوش قسمتی کہیئے کہ اس وصیت نامے کے منظوم ترجمے کے لیے اور صرف اسی خط کے لیے ہی نہیں بلکہ مکمل نہج البلاغہ کے منظوم ترجمے کے لیے ادیب عصر، محقق دوراں، خطیب بے بدل، دبیر دہر، انیس عصر، فرزدق دوراں شاعر شیریں بیاں، حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سلمان عابدی زید عزہ کی ذات کو صنّاع ازل نے چن لیا ورنہ یہ شعبہ ھل من مبارز کی صدائے بازگشت کو ہی سنتا رہتا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl
منظوم ترجمہ:حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سلمان عابدی زید عزہ

امام علیؑ کا امام حسنؑ کے نام خط: یہ اخلاقی اور توحیدی مطالب پر مشتمل خط امیرالمؤمنین(ع) کی طرف سے ہے جسے آپ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں اپنے بیٹے امام حسن مجتبی(ع) کے نام لکھا ہے۔ اس خط میں مذکور اہم نکات: تقوا، دعا، تاریخ کا مطالعہ اور اس سے عبرت لینا اور اپنے زمانے کی پہچان کرنا ہے اور نیز اس میں حکمت آمیز مختصر جملے بھی ہیں۔ نہج البلاغہ کے ترجموں اور شروحات کے علاوہ اس خط کا مستقل ترجمہ بھی بہت ہوا ہے اور ترتیب کے حوالے سے اس خط کا نمبر نہج البلاغہ کے مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔

جب امیر المومنینؑ جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو اس وقت یہ خط لکھا گیا ہے۔ لیکن جس جگہ اس خط کو لکھا گیا ہے اس کا نام نہج البلاغہ میں «حاضرین» ذکر ہوا ہے جس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کسی جگہ کا نام ہے یا جو لوگ حاضر تھے وہ مراد ہیں۔

سید رضی نے اس خط کا مخاطب امام حسن(ع) کو قرار دیا ہے لیکن خط کی بعض عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسنؑ کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جیسے: «عبد الدنیا» یا «تاجر الغرور»؛ بلکہ امیر المومنینؑ کی عصمت کے شایان شان بھی نہیں ہیں جیسے:«أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِی رَأْیی کمَا نُقِصْتُ فِی جِسْمِی»؛ ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ یہ جملے شیعوں کے عصمت عقیدۂ کے منافی ہے اور اس عقیدے کو باطل قرار دیتا ہے۔

ابن میثم بحرانی جیسے بعض نہج البلاغہ کے شارحین کا کہنا ہے کہ سید رضی کے نقل کے برخلاف جعفر بن بابویہ سے نقل کے مطابق خط کا مخاطب محمد بن حنفیہ ہیں، بعض اور کا کہنا ہے کہ یہ وصیت نامہ ایک عام دستور العمل اور نصیحت ہے جس میں امام علیؑ نے ایک باپ کی حیثیت سے امام حسن کو ایک بیٹے کی جگہ رکھ کر نصیحت کی ہے اسی لئے وصیت میں ارشاد ہوتا ہے۔ «مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ» «إِلَی الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لایدْرِک» یہ نہیں کہا ہے «مِنْ علی بن ابی طالب» «الی الحسن بن علی». یا دوسرے لفظوں میں وصیت کے اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصود باپ اور بیٹے کا رابطہ ہے؛ امام اور اس کے جانشین کا نہیں۔

اس خط کا ترجمہ یوں تو نہج البلاغہ کے ہر مترجم نے کیا ہے لیکن بعض مستقل طور پر بھی اس خط کے ترجمے مختلف زبانوں میں ملتے ہیں۔اور سب سے زیادہ ترجمہ فارسی زبان میں ہوا ہے۔ترجمہ کے علاوہ بہت سارے علماء نے اس خط کی شرح بھی کی ہے جو کہ عربی اور فارسی زبان میں بہت ہیں۔

یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ اچھا محقق اچھا شاعر نہیں ہو سکتا کیونکہ تخلیق اور تحقیق ادب کے دو الگ الگ پیشے ہیں اور ان کے لیے مزاج بھی مختلف چاہئیں تخلیق اور تحقیق کا یہ اختلاف اپنی جگہ بڑی حد تک درست بھی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ صفات  ادیب عصر، محقق دوراں، خطیب بے بدل، دبیر دہر، انیس عصر، فرزدق دوراں شاعر شیریں بیاں، حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سلمان عابدی زید عزہ کی ذات والا صفات میں باہم اپنے تمام تر کمالات کے ساتھ موجود و مشہود ہیں، اردو ادب کی خوش قسمتی کہیئے کہ اس وصیت نامے کے منظوم ترجمے کے لیے اور صرف اسی خط کے لیے ہی نہیں بلکہ مکمل نہج البلاغہ کے منظوم ترجمے کے لیے آپ کی ذات کو صنّاع ازل نے چن لیا ورنہ یہ شعبہ ھل من مبارز کی صدائے بازگشت کو ہی سنتا رہتا۔

قسط سوم

یاد رکھو تمہارے پیش نظر
ایک دشوار گھاٹی ہے دلبر

اس لئے انتظام کر لو ابھی
منتخب کرلو اک ٹھکانہ کوئی

کیونکہ مرنے کے بعد اے دلبر
کوچ کرنے کے بعد جان پدر

نہ حصول رضا کا ساماں ہے
نہ پلٹنے کا کوئی امکاں ہے

عرش اور فرش کے خزانوں پر
جس کا قبضہ ہے اے مرے دلبر

اس نے اذن طلب ہے تم کو دیا
استجابت کا ذمہ بھی ہے لیا

مانگنے پر تمہیں کیا مامور
تاکہ درخواست کو کرے منظور

درمیاں اپنے اور تمہارے پسر
اس نے درباں نہیں بٹھائے پسر

نہ سفارش ہی کرنے والے کا
بیٹا محتاج اس نے تم کو کیا

نہ گناہوں کے ارتکاب پہ بھی
توبہ کرنے سے تم کو روکا کبھی

نہ عذاب و سزا میں جلدی کی
نہ انابت پہ کی ہے طعنہ زنی

نہ ہی اس نے کیا تمہیں رسوا
رسوا کرنا جہاں ضروری تھا

(اللہ اکبر مترجم)

نہ تو بخشش میں اس نے تم سے کبھی
شرطیں لگواکے سخت گیری کی

نہ گناہوں پہ جرح کرکے ذرا
اپنی رحمت سے نا امید کیا

بلکہ جرم و خطا سے رکنے کو بھی
اس نے بیٹا بنادیا نیکی

اور برائی میں یہ حساب رکھا
ایک کو ایک ہی شمار کیا

اور نیکی میں یہ کیا اس نے
ایک کو دس بنادیا اس نے

اُ س نے پھر دے کے تم کو اذن دعا
رحمتوں کے خزانے کی بیٹا

کنجیاں دیدی ہیں تمہیں دلبر
کھول لو ان سے رحمتوں کے در

اس کی رحمت کے جھالے برسالو
اس کو جب چاہو بیٹا منوالو

استجابت میں ہو اگر تاخیر
تو نہ زینہار ہونا تم دلگیر

کہ عطیہ بہ قدر نیت ہے
" فکر ہر کس بقدر ہمت ہے"

استجابت میں اس لئے بھی کبھی
اے مرے لال ہوتی ہے دیری

تاکہ اجر و ثواب اور بڑھے
مانگنے والے کو زیادہ ملے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .